ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی : ایک تعارف

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی : ایک تعارف
نام :۔ احمد علی قلمی نام: ۔برقی اعظمی تخلص:۔ برقی ؔ ‏ تاریخ پیدائش:۔یوم شنبہ، ٢٥؍ڈسمبر ١٩٥٤‏ مقام پیدائش:۔ اعظم گڑھ
اردو اکادمی دہلی ایوارڈ برائے بہترین کتاب ( شعری مجموعہ روح سخن ) ۲۰۱۳
فخر اردو ایوارڈ : منجانب جموں و کشمیر اردو گلڈ
توصیفی سند: میراث سخن منجانب بزمِ شیدائے ادب ، متھرا، یوپی
خواجہ الطاف حسین حالی ایوارڈ : ادارۂ بیسٹ اردو پوئیٹری
مولانا محمد علی جوہر ایوارڈ ۲۰۱۶ منجانب محمد اکرم میموریل پبلک سوسائٹی  نجیب آباد بجنور
توصیفی سند منجانب یونیورسل اردو پوسٹ ڈاٹ کام
سند اعزاز : پہلا  سالانہ جگنو انٹرنیشنل ایوارڈ ۲۰۱۵ منجانب جگنو انٹرنیشنل لاہور
لوح تقدیر : توصیفی سند از طرف  کلچرل کونسلر خانۂ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران ، نئی دہلی
احمد علی جناب برقی نے اپنی تعلم ابتدائیہ سے لے کر ‏کالج تک شبلی کالج اعظم گڑھ میں مکمل کی۔ وہاں سے ‏اردو میں یم اے ماسٹرس کرنے کے بعد سنہ ‏‏١٩٧٧میں وہ دہلی چلے آئے اور وہاں جواہرلال ‏نہرو یونیورسٹی سے فارسی میں یم اے اور پی یچ ڈی ‏کی ڈگری حاصل کی ۔ اور ١٩٨٣ سے تا حال آل ‏انڈیا ریڈیو فارسی سے منسلک ہیں۔ ‏ برقی اعظمی نے اپنے والد محترم جناب رحمت الہی ‏برق اعظمی ، جو دیار شبلی کے ایک باکمال صاحب ‏طرز استاد سخن تھے، سے کسب فیض اور شعری ‏تربیت حاصل کی۔ جن کا روحانی تصرف برقی اعظمی ‏کے مرصع کلام کی صورت میں آج تک جاری و ساری ہے۔ ‏ ‏ برقی اعظمی کا اپنا ایک مخصوص لب و لہجہ ہے جو ان ‏کے شعور فکر وفن کی شناخت ہے۔ برقی اعظمی نے ‏اپنے فکر و فن سے غزل مسلسل کی صورت میں روایتی اردو شاعری کو ایک جدید رنگ و آہنگ سے ‏روشناس کیا جو ان کا طرۂ امتیازہے ۔ برقی اعظمی نے ‏اپنا شعری سفر موضوعاتی شاعری سے شروع کیا اور ٢٠٠٣ سے چھ سال تک ان کی موضوعاتی نظمیں سائنس، طب، حالات حاضرہ، آفات ارضی و ‏سماوی جیسے گلوبل وارمنگ، سونامی اور زلزلے وغیرہ سے ‏متعلق دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ سائنس ‏میں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ بعد ازاں باقاعدہ اردو ‏غزل نویسی کی طرف توجہ کی اورآج انٹرنٹ کے ‏وسیلے سے ان کی غزلیں اور نظمیں لوگوں کی لذت کام و ‏دہن کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ برقی اعظمی اردو کی ‏مختلف ویب سائٹس اورادبی فورم سے کسی سے کسی ‏حیثیت سے وابستہ ہیں اور ان کا کلام اردو کی بیشتر ‏ویب سائٹس پر دیکھا جاسکتا ہے۔ قارئين گوگل ‏سرچ انجن پر برقی اعظمی لکھ کر ان کی انٹرنٹ پر ‏سرگرمیوں کے متعلق معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ ‏برقی اعظمی آجکل فیس بک پر بہت فعال نظر آتے ‏ہیں اوراس جدید وسیلہ ترسیل ابلاغ سے جو اقوام ‏عالم سے رابطہ کا ایک بہترین ذریعہ ہے بحسن خوبی ‏استفادہ کررہے ہیں۔ برقی اعظمی  جدید اردو غزل میں ، غزل مسلسل کو ‏فروغ دینے میں ایک نمایاں کردار ادا کررہے ہیں ۔ ‏بہ الفاظ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بر قی اعظمی کو غزلِ مسلسل غیر معمولی مہارت حاصل ہے۔ ان کو فی ‏البدیہہ غزلیں اور منظوم تاثرات لکھنے پر بھی ‏قدرت حاصل ہے ۔ اور وہ باقاعدگی کے ساتھ فیس ‏بک پر موجود مختلف ادبی فورمس کے مشاعروں میں ‏شریک ہوتے رہتے ہیں۔ اور کوئی دن ایسا نہیں ‏گزرتا کہ وہ کوئی نہ کوئی نئی غزل فیس پر پوسٹ نہ ‏کرتے ہوں۔ ایک بار مرحوم عزم بہزاد نے لکھا تھا کہ ‏اگر کسی دن برقی اعظمی کی غزلیں فیس بک پرنظر ‏نہیں آتیں تو ناشتے کے دوران شدید تشنگی کا احسا س ‏ہوتا ہے۔ گویا ان کی شاعری زندگی کے روزانہ ‏معمول کاایک جزو لاینفک معلوم ہوتی ہے۔ میرے ‏خیال میں ایک شاعرکیلئے اس سے بہترخراج تحسین ‏نہیں ہوسکتا۔ ‏
برقی اعظمی کے لوگوں کے کلام پر منظوم تاثرات ‏بھی ان کی بدیہہ گوئی اور زبان و بیان پر مکمل ‏دسترس کے آئینہ دار ہیں۔ اگر ان کے ان فی ‏البدیہہ تاثرات کو یکجا کرلیا جائے تو بدیہہ گوئی سے ‏متعلق ایک شعری مجموعہ ترتیب دیجاسکتاہے ۔ ان کو جیسے ہی مشاہیر اردو کے یوم پیدائش یا برسی ‏سے متعلق کوئی اطلاع ملتی ہے تو ان کا قلم خودبخود ‏حرکت میں آجاتا ہے اور وہ یاد رفتگاں کے عنوان ‏کےتحت اسے صفحہ قرطاس پر منتقل کردیتے ہیں اس ‏طرح یاد رفتگاں سے متعلق بھی ایک مجموعہ ترتیب ‏دیا جاسکتا ہے ۔ ‏ خلاصہء کلام یہ کہ برقی اعظمی کا اشہب قلم صنف ‏سخن کے ہر میدان میں یکساں جولانیاں دکھاتا ہے۔ ‏جو ان کی انفرادیت اور اردو شاعری میں جدید لب و ‏لہجہ کا آئینہ دار ہے۔ کسی نامعلوم شاعر کا یہ شعر :‏ یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ ‏ یاد رکھوفسانہ ہیں ہم لوگ برقی اعظمی کی شخصیت پر پوری طرح صادق ہے ۔ ‏اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی برقی اعظمی مقامی سطح ‏پر غیر معروف ہیں اور میر کی دلی میں گوشہء عزلت ‏میں محصور ہیں۔ جو اس شعر سے ظاہر ہے۔ ویب سائٹوں پہ لوگ ہیں خوش فہمی کا شکار نا آشنائے حال ہیں ہمسائے بھی مرے ‏ ایک جگہ اور وہ لکھتے ہیں کہ ۔ ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے ‏ کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا ویب سائٹوں پہ لوگ ہیں خوش فہمی کے شکار ‏ ناآشنا وطن میں ہے رنگ سخن مرا ان کا یہ ذہنی کرب اس شعر میں بھی ملاحظہ ‏ہو۔ فصیل شہر سے باہرنہیں کسی کو خبر بہت سے اہل ہنر یونہی مرگئے چپ چاپ

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی اعظم گڑھ کے ایک ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے والد ماجد جناب رحمت الہی برقؔ دبستان داغ دہلوی سے وابستہ تھے اور ایک باکمال استاد شاعر تھے۔ برقیؔ اعظمی ان دنوں آل آنڈیا ریڈیو میں شعبہ فارسی کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد اب بھی عارضی طور سے اسی شعبے سے وابستہ ہیں۔۔ فی البدیہہ اور موضوعاتی شاعری میں آپ کو ملکہ حاصل ہے۔ آپ کی خاص دل چسپیاں جدید سائنس اور ٹکنالوجی خصوصاً اردو کی ویب سائٹس میں ہے۔ اردو و فارسی میں یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ روحِ سخن آپ کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔