فانی بدایونی کی زمین میں ایک غزل : احمد علی برقی اعظمی ۔۔۔ بشکریہ ایک زمین کئی شاعر

ایک زمین کئی شاعر
فانی بدایونی اور احمد علی برقی اعظمی
فانی بدایونی
قطرہ دریائے آشنائی ہے
کیا تری شان کبریائی ہے
تیری مرضی جو دیکھ پائی ہے
خلش درد کی بن آئی ہے
وہم کو بھی ترا نشاں نہ ملا
نارسائی سی نارسائی ہے
کون دل ہے جو دردمند نہیں
کیا ترے درد کی خدائی ہے
جلوۂ یار کا بھکاری ہوں
شش جہت کاسۂ گدائی ہے
موت آتی ہے تم نہ آؤگے
تم نہ آئے تو موت آئی ہے
بچھ گئے راہ یار میں کانٹے
کس کو عذر برہنہ پائی ہے
ترک امید بس کی بات نہیں
ورنہ امید کب بر آئی ہے
مژدۂ جنت وصال ہے موت
زندگی محشر جدائی ہے
آرزو پھر ہے در پئے تدبیر
سعی ناکام کی دہائی ہے
موت ہی ساتھ دے تو دے فانیؔ
عمر کو عذر بے وفائی ہے
احمد علی برقی اعظمی
آپ نے بزمِ دل سجائی ہے
دل لگانے میں کیا برائی ہے
روح پرور ہیں روز و شب میرے
آپ کی جب سے یاد آئی ہے
جیسے بر آئی ہو مراد کوئی
دل پہ ایک بیخودی سی چھائی ہے
آپ کیا ہیں مجھے ہے سب معلوم
آپ کی ڈھونگ پارسائی ہے
کون اس کو بجھائے گا آخر
آگ دل مین جو یہ لگائی ہے
صفحۂ ذہن پر ہے وہ موجود
دیدہ و دل میں جو سمائی ہے
دیں گے کب اس کو دعوتِ دیدار
آپ سے جس نے لو لگائی ہے
کہیں فانی کی تو نہیں تقدیر؟
میرے حصے میں جو بھی آئی ہے
یادِ فانی منا رہے ہیں جو
خوب انہیں اُن کی یاد آئی ہے
مستحق ہیں وہ داد و تحسیں کے
جن کو اب اُن کی یاد آئی ہے
اُس سے بڑھ کر نہیں کوئی خوش بخت
زندگی جس کو راس آئی ہے
چاہتے ہیں وہ سونپ دوں ان کو
زندگی بھر کی جو کمائی ہے
جس کوکہتے ہیں آج وہ فیشن
عہدِ حاضر کی بے حیائی ہے
لوگ مغرب زدہ ہیں کیوں آخر
اپنی تہذیب کیا پرائی ہے
خواب غفلت میں آج ہیں جو لوگ
اُن کی قسمت میں جگ ہنسائی ہے
حال نا گفتہ بہ ہے برقی کا
’’ نارسائی سی نارسائی ہے‘‘