غالب اکیڈمی،نئی دہلی کے یوم تاسیس اور مرزا غالب کے ۱۵۱ ویں یوم وفات پرطرحی مشاعرہ کا انعقاد

                                            

غالب اکیڈمی،نئی دہلی کے یوم تاسیس اور مرزا غالب کے ۱۵۱ ویں یوم  وفات پرطرحی مشاعرہ کا انعقاد
            غالب اکیڈمی ہرسال مرزا غالب کی یوم وفات اور غالب اکیڈمی  کے یوم تاسیس کے موقع پر ادبی و ثقافتی تقریبات کا اہتمام کر تی آرہی  ہے جس کو بے حدسراہا جاتا رہا ہے۔اس سال بھی طرحی مشاعرے کا شاندارانعقاد کیا گیا۔ سکریٹری غالب اکیڈمی نے شعرا،مہمان و سامعین کا خیر مقدم کیا۔ مشاعرے کی صدارت عصر حاضر کے ذی وقار شاعر جناب وقارمانوی  نے کی اور نظامت کے فرائض معروف شاعرمعین شاداب نے ادا کئے۔ طرح کے تین مصرعے (1)گر نہ اندوہ ِشبِ فرقت بیاں ہو جائے گا (2)بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے (3)ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے۔ ان تین طرحوں میں دہلی کے معروف و مشہور شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔اشعار پیش خدمت ہیں   ؎
جیسے بھی ہو ہمین بھی دکھا اپنی اک جھلک
ہم بھی کہیں کہ صاحبِ دیدار ہم ہوئے
وقار مانوی
جانے کس خطہئ عالم سے گزر ہے میرا
میں ہوں ایماں سے پریشاں میرا ایماں مجھ سے
جی آر کنول
بات کرنے لگے،ہر سیرت انساں مجھ سے
حامل ِ باطل وشر، سب ہیں پریشاں مجھ سے
ظفر مراد آبادی
شہریت کا مری جو مانگتے ہیں مجھ سے ثبوت
کچھ بتائیں تو سہی کیوں ہیں ہراساں مجھ سے
احمد علی برقی اعظمی
کارواں سب کچھ ہے میرا،وہ نہیں تو کچھ نہیں
وقت پر سب کچھ نثار کارواں ہوجائے گا
تابش مہدی
کیسے بتلاؤں جو پوچھے دل ناداں مجھ سے
 میں ہوں عالم سے کہ ہے عالم امکاں مجھ سے
 احمد محفوظ
جب تری یاد کے جگنو سر مژگاں چمکے
روشنی مانگنے آئی شبِ ہجراں مجھ سے
 جلیل نظامی (دوحہ قطر)
بے ثباتی تعلق کا یقین مجھ کو ہوا
میرے احباب ہوئے جب سے گریزاں مجھ سے
فصیح اکمل
ہے پریشان بہت فتنۂ  دوراں مجھ سے
اس نے دیکھے تھے کہاں سوختہ ساماں مجھ سے
نسیم عباسی
شاخ گل ہے یہ مرے ہاتھ میں شمشیر نہیں
جانے کیوں خوفزدہ ہیں یہ حریفاں مجھ سے
فاروق ارگلی
اہل جنوں کے واسطے تیغ و سناں سے کہا
 ہونٹوں پہ جاں تھی، حوصلے پھر بھی نہ کم ہوئے
شفا کجگاؤنوی
فضل سے میرے ہے شاداب گلستاں مجھ سے
رنگ ایک ایک کلی کا ہے نمایاں مجھ سے
سرفرازاحمد فراز
ایسی نظر پیار کی دونوں نے پیش کی
 مذہب کی فکر چھوڑ کے وہ ہم قدم ہوئے
ممتا کرن
کیوں کر اگے گا سبزہ یہاں کی زمین پر
عرصہ ہوا ہے گاؤں کی مٹی کو نم ہوئے
عمران عظیم
میرے دامن میں تو وحشت ہے جنوں ہے شاہد
 کیا سنور سکتی ہے تقدیرِ بیاباں مجھ سے
شاہد انور
ظلم بتلاؤں کسے وہ رازداں ہوجائے گا
 فاصلہ پھر اس کے میرے درمیاں ہوجائے گا
نسیم بیگم
بار بار آنا مرے ذہین پہ دستک دنیا
جانے کیا چاہتی ہے عمر گریزاں مجھ سے
جمیل مانوی
میری  آنکھوں نے سنواری ہے تری نوک پلک
یوں نگاہیں نہ بدل شہر نگاراں مجھ سے
شاہد انجم
زندگی ہے شرابوں کا تعصب یعنی
ہر قدم دوریئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
سمیر دہلوی
عشق سے خالی اگر سارا جہاں ہوجائے گا
چاندنی بجھ جائے گی سورج دھواں ہوجائے گا
ارشد ندیم
ساری فضیلتیں نہیں ملتیں لباس سے
دستار اوڑھ کر بھی کب محترم ہوئے
معین شاداب
            آخر میں سکریٹری غالب اکیڈمی نے شعرا و شرکا اور سامعین کا شکریہ اداد کیا۔