’’ زخم کھا کر بھی مُسکراؤ تم ‘‘ ـدیا ادبی فورم کے ۱۶۰ ویں آن لاین فی االبدیہہ مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی

دیا ادبی فورم کے ۱۶۰ ویں آن لاین فی االبدیہہ مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
مجھے اب اور مَت ستاؤ تم
لوٹ کر یوں ابھی نہ جاؤ تم
کہہ رہے ہو چلا کے تیرِ نظر
’’ زخم کھا کر بھی مُسکراؤ تم ‘‘
کیا مجھے تم بھلا سکو گے کبھی
کہہ دیا مجھ سے بھول جاوٌ تم
مُرتَعِش ہو نہ جائے تارِ وجود
رگِ احساس مت دباؤ تم
اپنی رودادِ دل بیان کرو
نہ ڈرو میرے پاس آؤ تم
آتشِ شوق جو جلائی ہے
آکے خود ہی اسے بجھاؤ تم
ہوتی ہے صبر و ضبط کی اک حد
اور اب مجھ پہ ظلم ڈھاؤ تم
تالی اک ہاتھ سے نہیں بجتی
میں بھی نادم ہوں مان جاؤ تم
بِن بُلائے کہیں نہیں جاتا
آؤں گا میں اگر بُلاؤ تم
ڈوب جائے نہ موجِ غم میں کہیں
کشتیٔ دل مری بچاؤ تم
یوں کسی سے خفا نہیں ہوتے
میں بھی آؤںگا پہلے آؤ تم
بدگماں کس لئے ہو برقی سے
کیوں ہو گُم سُم کھڑے بتاؤ تم