ریختہ ای بکس سے… عالمگیر تنہائی اور وبا کے دنوں میں کتابوں کا سہارا توصیف خان

ریختہ ای بکس سے
عالمگیر تنہائی اور وبا کے دنوں میں  کتابوں کا سہارا
توصیف خان
اچھی کتاب اپنے قاری کے لیے ایسے دوست کی حیثیت رکھتی ہے جو اس کو کبھی تنہائی اور اکتاہت کا احساس نہیں ہونے دیتی،  یہ ایک ایسے ہمسفر کی مانند ہے جو اپنے ساتھی کو دور دراز کے علاقوں اور شہروں کی گھر بیٹھے سیر کرادیتی ہے، آج کل ہم کرونا کی وبا کے سبب سفر نہیں کرسکتے، سب اپنے اپنے گھروں میں وقت گزاری کررہے ہیں، زندگی کی یکسانیت نے بور کررکھا ہے، ایسے وقت میں کتاب ہماری بہترین ہم نشین ہو سکتی ہے، کیونکہ مطالعہ انسان سے غم اور بے چینی کو دور کرتا ہے، سستی اور کاہلی کو غالب نہیں آنے دیتا،  ذہنی تناؤ کو ختم کرکے اس کو پرسکون بناتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو جلا بخشتا ہے، مطالعہ بلند خیالی اور بصیرت کی صفت سے آراستہ کرتا ہے۔ ریختہ ہر برے بھلے وقت میں اپنے قارئین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے، چنانچہ ریختہ  rekhta.org نے اپنے قارئین کے لئے، مختلف حظ و ذائقہ کی دس ایسی کتابوں کا انتخاب کیا ہے جنہیں پڑھ کر اس مشکل وقت کی مغموم فضا کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے۔
"گویا دبستاں کھل گیا”
 یہ چودھری محمد علی ردولوی کے خطوط کا منتخب مجموعہ ہے، جسے ان کی چھوٹی بیٹی ہما بیگم نے مرتب کیا، اس میں زیادہ تر خطوط بھی انہیں کے نام ہیں، ان خطوط کی سب سب سے بڑی خصوصیت ان کا شگفتہ اسلوب بیان ہے۔ چودھری صاحب خوش مزاج، خوش ذوق، خوش لباس اور خوش گو انسان تھے، ان کے انداز بیان میں ان کی طبیعت کی شوخی جابجا جھلکتی نظر آتی ہے۔
"سوانح عمری مولانا آزاد”
نواب سید محمد آزاد کا شمار "اودھ پنچ” کے معتبر لکھاریوں میں ہوتا ہے، رشید احمد صدیقی نے ان کو اردو کے بڑے طنزیہ نگاروں میں شمار کیا ہے۔ یہ محمد حسین آزاد اور ابوالکلام آزاد کے علاوہ تیسرے انشا پرداز آزاد ہیں، زیر نظر کتاب مصنف کا ایک طنزیہ کارنامہ ہے، ایک فرضی  کردار جس کو اپنے نام سے موسوم کرکے، اس کی خودنوشت تحریر کی ہے، پھر اس کردار کے  ذریعہ معاشرے کی اخلاقی پستی، زبوں حالی اور جہاں جہاں کمزوری نظر آئی اس کی طرف طنزیہ اشارہ کرکے ایک معاشرتی اور تہذیبی خدمت کا فریضہ انجام دیا ہے، اسلوب بیان نہایت دلکش ہے، مرتب نے اس تخلیق کو ایک ظنزیہ ناول قرار دیا ہے، اس میں جگہ جگہ ظرافت کی جھلکیاں دیکھنے کو مل جاتی ہیں، یہ ناول "اودھ پنچ” میں قسط وار شائع ہوا، جس کو اپنے زمانے میں کافی مقبولیت ملی۔ مرتب نے مصنف کے حالات اور فن پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
"دکھیارے”
 یہ انیس اشفاق کا زبان و بیان سے لیس ایک بہترین ناولٹ ہے، صلاح الدین درویش نے اس ناولٹ کو اردو کے دس بہترین ناولوں میں جگہ دی ہے، ناول کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، "(ناول) میں لکھنو کے ثقافتی اور تمدنی باقیات سے جڑے بڑے بیانیے کو ایک نیم پاگل شخص کی سرگزشت میں بیان کیا گیا ہے۔ عظیم اور شاندار لکھنو جس نے شمالی ہندوستان کے تہذیبی شہر دلی کے مقابلے میں ریاست کے شیعہ تشخص کو ادب، مجالس، میلوں ٹھیلوں، بازاروں، چوراہوں، گھروں، محلات، کوچوں، مساجد اور امام بارگاہوں کے ذریعے ایک دیکھنے لائق ثقافت میں ڈھال دیا تھا اور اپنی جمالیاتی قدروں کو زمانے سے منوایا تھا۔ نوابی بندوبست کے خاتمے کے ساتھ ہی اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے، غربت محلات سے لے کر امام باڑوں تک کی قیمت لگا دیتی ہے لیکن اس شہر کے باسیوں کی نہ غربت کم ہو پاتی ہے نہ زندگی پر اختیار۔ ناول میں مرکزی کردار بڑے بھائی کے ذریعے گذشتہ لکھنو کی ثقافتی اقدار کو لکھنو کے مجروح تمدنی ماحول میں جہاں ایک طرف ملول دل کے ساتھ تحفظ کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، وہیں اس شہر کے اطراف میں پھیلتی انسانی آبادیوں میں مسلسل اور بے تحاشا اضافے کے باعث اس شہر کے سکڑتے سکڑتے اس کی عظمت رفتہ کا نوحہ بھی بیان کر دیا ہے۔ اس ناول کے فن میں خوبصورتی یہ ہے کہ مضافات میں پھیلتے شہر میں کوئی شکایت بھی نہیں ملتی۔”
"دلی جو ایک شہر تھا”
 "دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب” ہاں، وہی دہلی جہاں سے علم و ادب کا سورج طلوع ہوا، جو اردو زبان و ادب کی پختہ رصدگاہ ہے، جہاں سے ستارۂ امتیاز کا ظہور ہوتا ہے اور میرو غالب کا پتا ملتا ہے، وہاں جب قہر غم الفت و روزگار پڑتا ہے تب بھی لوگ اسے سینے سے لگائے رہتے ہیں، جہاں کی وضع داری اور محبتیں مشہور ہیں، جو خواجگان کی سرزمین کہلاتی ہے، جس کی تہذیب و تمدن کے اہرام کئی بار مسمار ہوئے، کئی بار تعمیر ہوئے، وہ دلی اور دلی والوں کی خوبیاں اب درگور اور درکتاب ہیں۔ اس کتاب کے مندرجات اسی دلی کی بازیافت ہیں، شاہد احمد دہلوی صاحب اسلوب ادیب ہیں، زبان کا برمحل استعمال اور محاوروں کو برتنے کا سلیقہ انہیں ورثہ میں ملا، ان کے یہاں دلی کی بولی ٹھولی اور ٹکسالی زبان کا استعمال بہت سلیقے  سےکیا گیا ہے۔
"کافکا کے افسانے”
فرانز کافکا کا شمار بیسویں صدی کے بہترین فکشن نگاروں میں کیا جاتا ہے، نئے اردو افسانے پر براہ راست یا بالواسطہ کافکا کا کافی اثر پڑا ہے، کافکا کو ادبیات میں پیچیدہ ترین دماغ کا مالک سمجھا جاتا ہے، اس کی تحریروں میں کئی طرح کی تاویلوں کے جواز موجود ہیں، اس کی تمثیلوں پر تمثیل کا گمان نہیں گزرتا بلکہ اس کا قاری انہونی باتوں کو ایک حقیقت سمجھ کر تسلیم کرلیتا ہے، یہی کافکا کا کمال ہے۔ اس مجموعہ میں کافکا کی چھوٹی بڑی بیس تحریریں شامل ہیں، جن کو نیر مسعود صاحب نے ترجمہ کیا ہے، کہانی کے ساتھ نیر مسعود کے اسلوب بیان سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
"بجنگ آمد”
 یہ کتاب اردو ادب کے مشہور و معروف مزاح نگار کرنل محمد خان  کی زمانۂ جنگ کی گزاری ہوئی زندگی کی داستان پر مبنی کتاب ہے۔ اس کتاب میں جہاں بہت سی ہونی اور ان ہونیوں کا ذکر ہے، جہاں بہت سے پر لطف یادگار اور قابل ذکر واقعات، ادوار اور یارانِ دلدار کا ذکر ہے وہاں انہوں نے اپنی اس کتاب کی معرفت اور اپنی خوش بیانی کی بنا پر ان کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ اس نے ان سب کو داستانِ جاوداں بنا دیا ہے، ممتاز مزاح نگار سید ضمیر جعفری کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں، "کہ انسانوں کی طرح کتابیں بھی قسما قسم کی ہوتی ہیں۔ مثلاً "بزرگ کتابیں”، "نادان کتابیں” وغیرہ وغیرہ۔ "بجنگ آمد” ایک "دوست کتاب” ہے یعنی ایسی کتاب جس پردل ٹوٹ کر آجائے۔ جس کے ساتھ وقت گزار کر آدمی دلی راحت محسوس کرے۔ جس سے بار بار گفتگو کرنے کو جی چاہے۔ دوست، جو خوش رو بھی ہے، خوش مذاق بھی۔ شوخ بھی ہے اور دلنواز بھی۔ ذہین بھی ہے اور فطین بھی اور ہنس مکھ اتنا کہ جب دیکھے ہونٹوں پر ہنسی آئی ہوئی ہو”۔
"بہاؤ”
 پاکستان سے شائع ہونے والا اردو ناول ہے جسے اردو کے مشہور و معروف مصنف مستنصر حسین تارڑ نے تحریر کیا ہے۔ اس ناول کا موضوع وادئ سندھ کی تہذیب ہے۔ اس ناول میں تارڑ نے تخیل کے زور پر ایک قدیم تہذیب میں نئی روح پھونک دی۔ "بہا” میں ایک قدیم دریا سرسوتی کے معدوم اور خشک ہوجانے کا بیان ہے،  دریا آہستہ آہستہ اتنا خشک ہو جاتا ہے کہ زندگی تعطل کا شکار ہو جاتی ہے اور پانی جو زندگی کا اہم عنصر ہے مفقود ہو جاتا ہے۔ اس تباہی سے بہت سے حیوانات مر جاتے ہیں۔ کچھ دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں۔ ڈائنو سار جیسے بڑے جانور ختم ہو جاتے ہیں مگر انسان واحد حیوان ہے جو محفوظ رہتا ہے۔ اس ناول کا دل چسپ عنصر بھی یہ ہے کہ انسان، ایک ایسی عجیب وغریب چیز ہے جو ان تمام حادثات و واقعات اور تباہی (Disaster) کے بعد بھی بچ نکلنے میں کامیاب رہتی ہے۔ اس ناول میں حیران کن چیز، مستنصرحسین تارڑ کا مضبوط تخیل ہے جو پانچ ہزار سال پہلے کی تہذیب ہماری آنکھوں کے سامنے لاکھڑی کرتا ہے۔
’’گمنام آدمی کا بیان‘‘
یہ شاعر و صحافی فاضل جمیلی کا پہلا مجموعہ کلام ہے، فاضل جمیلی ایک باکمال شاعر ہیں، ان کی نظموں میں زندگی رواں دواں دکھائی دیتی ہے ان کا مجموعہ کلام خوبصورت اشعار سے مزین ہے۔ وہ نظم اور غزل پر یکساں قدرت رکھتے ہیں، اس مجموعہ میں غزلوں کے علاوہ چھوٹی بڑی تقریبا ستر نظمیں بھی ہیں، بہت آسان زبان میں کہی گئی ہیں، جن کے مطالعہ سے مختلف قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں، جو کبھی کبھی مایوس بھی کردیتی ہے۔ وہ لفظوں کے مصور ہیں، احساس کو خوبصورتی عطا کرتے ہیں۔ فاضل جمیلی کی شاعری جدید دور کے تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہے، یہ مجموعہ شروع کرنے کے بعد خود کو پڑھواتا اور منواتا ہے، یہاں بہت کچھ ہے۔ سوزوگداز، جدت طرازی، نکتہ رسی، ایسے ایسے پرخیال اشعار جن کو پڑھ کر ایک طرح کا اطمینان ملتا ہے۔
"چلتے ہو تو چین کو چلئے”
یہ ابن انشا کا سفرنامہ چین ہے، چین آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے ویسے ہی کافی چرچے میں ہے، ابن انشاء نے یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی و ایشیائی ممالک کا دورہ کیا تھا، جن کا احوال اپنے سفر ناموں میں اپنے مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں تحریر کیا۔ مزاح کے پردے میں ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بلیغ طنز انہی کا طرہ امتیاز ہے۔ پیروڈی کا انداز، وسعت معلومات، سیاسی بصیرت اور صورت واقعہ سے مزاح کشید کرنا وہ خاص عناصر ہیں جن کی بدولت ابن انشا کو ادبی لیجینڈ کا تاج ملا۔ اﺑﻦ ﺍﻧﺸﺎ ﺍﯾﮏ بڑے ﻣﺰﺍﺡ ﻧﮕﺎﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﺰﺍﺡ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻦ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﮐﺎ ﺍﺳﻠﻮﺏ ﺍﻭﺭ ٓﮨﻨﮓ ﻧﯿﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﺳﺎﺩﮔﯽ ﭘﺮﮐﺎﺭﯼ،  ﺷﮕﻔﺘﮕﯽ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮕﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻈﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮﯾﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﺩﺑﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺍﻭﺭ ﻧﻌﻤﺖ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔مشتاق احمد یوسفی نے ابن انشاءکے مزاحیہ اسلوب کے حوالے سے لکھا، "بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔” ۱۹۸۱ تک یہ سفر مانہ تقریبا ۹ مرتبہ پبلش ہوچکا تھا، اس سے اس سفر نامہ کی کچھ مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
"مجموعہ مرزا عظیم بیگ چغتائی”
یہ مرزا عظیم بیگ چغتائی کی تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں ان کے کچھ ڈرامے، داستان اور مضامین شامل ہیں، اردوزبان کو طنزومزاح سے جن ادیبوں نے پوری طرح مزین کیا، ان میں دیگر فنکاروں کے ساتھ مرزا عظیم بیگ چغتائی کا بھی بڑا حصہ ہے، وہ زندگی کو پیش کرنے والے ادیب ہیں، بہت مشکل حالات میں زندگی بسر کی، انہوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور اپنی تحریروں میں کاروان حیات کےمختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، مرزا عظیم بیگ نے اپنی تحریروں میں خوش مزاجی اور زندہ دلی کو اس طرح شامل کیا کہ وہ معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بن گئیں۔ وہ چہار دیواری کے اندر مچلتی ہوئی خواہشوں کو اتنے چلبلے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ قاری کے لبوں پر نہ صرف تبسم رقص کرنے لگتا ہے بلکہ وہ بہت کچھ سوچنے پر بھی مجبور ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں خود اپنی زندگی کے بعض حالات کو بھی شامل کرکے ان کے کرداروں میں خود اپنی ذات کو بھی شامل کرلیتے ہیں، ان کا پرخلوص انداز اور شائستہ اسلوب واقعی لائق تحسین ہے۔
نوٹ:

 پڑھ کر ضرور بتائیں کہ ریختہ کی یہ پیش کش آپ کو کیسی لگی، آپ اپنی طرف سے بھی کوئی تجویز، کچھ اپنی پسند کی کتابوں کی فہرست پیش کر سکتے ہیں، ریختہ اگلی پیش کش میں آپ کی پسند پر ضرور غور کریگا۔ آپ اپنی رائے ہمیں [email protected]    پر دے سکتے ہیں۔