بس کہ اک جنس رائیگاں ہوں میں : نذر میر مہدی مجروح :میر مہدی مجروح اور احمد علی برقی اعظمی : بشکریہ ایک زمین کئی شاعر اور دیا گروپ

ایک زمین کئی شاعر
میر مہدی مجروح اور احمد علی برقی اعظمی
میر مہدی مجروح
بس کہ اک جنس رائیگاں ہوں میں
جتنا ارزاں بکوں گراں ہوں میں
نہ یہاں اور نہ اب وہاں ہوں میں
کیا بتاؤں تمہیں جہاں ہوں میں
یاد میں ہے کسی کی استغراق
کون پہنچے وہاں جہاں ہوں میں
مدد اے نغمہ‌ سنجیٔ بلبل
کب سے گم کردہ آشیاں ہوں میں
ڈھب ہے یہ یار تک پہنچنے کا
کاش قاصد ہی کا بیاں ہوں میں
نے کی مانند خشک ہیں اعضا
کیوں نہ سر تا بہ پا فغاں ہوں میں
لطف پایا ہے خاکساری میں
ہوں زمیں گو کہ آسماں ہوں میں
کس نے جلوہ دکھا دیا ہے آج
زمزمہ سنج الاماں ہوں میں
تا کجا تیز گامیاں بس کر
توسن شوق ہم عناں ہوں میں
گرد دیتی ہے کارواں کا پتا
یادگار گزشتگاں ہوں میں
جان کیوں کر نثار مقدم ہو
اب وہ آئے کہ نیم جاں ہوں میں
کیا نہیں یاد برق کا گرنا
پھر بناتا جو آشیاں ہوں میں
یہ سفر دیکھیے کہاں ہو تمام
مثل ریگ رواں رواں ہوں میں
کوئی اس عہد میں نہیں ہے شفیق
آپ اپنے پہ مہرباں ہوں میں
دیکھ پچھتائے گا نہ لے کے مجھے
مایۂ نازش دکاں ہوں میں
عشق میں سو بلائیں لیں سر پر
اپنے حق میں خود آسماں ہوں میں
قدر کیوں خوان دہر پر ہو مری
سچ ہے نا خواندہ مہماں ہوں میں
اول شب ہی ہجر میں ان کے
ڈھونڈھتا خنجر و سناں ہوں میں
نہ ٹلا اس کے در سے اے مجروحؔ
دوسرا سنگ آستاں ہوں میں
غزل
احمد علی برقیؔ اعظمی
کون ہوں ، کیا ہوں اور کہاں ہوں میں
’’ بس کہ اک جنسِ رائیگاں ہوں میں‘‘
خود ہوں اپنے حصار میں محصور
نہیں کوئی وہاں جہاں ہوں میں
تن بدن میں لگی ہے ایسی آگ
آتشِ شوق کا دھواں ہوں میں
میں ہوں از روئے مصلحت خاموش
وہ سمجھتے ہیں بے زباں ہوں میں
اب ہے بادِ سموم کی زد پر
وہ چمن جس کا باغباں ہوں میں
جسم میں خوں ہے آتشِ سیال
ایک جلتا ہوا مکاں ہوں میں
تھے زمیں پر کبھی جو بارِ گراں
وہ سمجھتے ہیں آسماں ہوں میں
زندگی ایسے کیسے گزرے گی
مجھ سے وہ اُن سے بدگماں ہوں میں
میں جہاں میزبان ہوتا تھا
اب وہیں جیسے میہماں ہوں میں
آج برقیؔ ہے جو زوال پذیر
ایسی تہذیب کا نشاں ہوں میں